
ستر کی دہائی: موسیقی کا ایک انقلابی اور سنہری دور
جب ہم ریڈیو کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں، تو یہ محض ایک آلہ نہیں بلکہ ثقافتوں اور نسلوں کو جوڑنے والا ایک جادوئی ذریعہ رہا ہے۔ ہر دور کی اپنی آواز رہی ہے، لیکن جب بات موسیقی کے تنوع اور لازوال دھنوں کی ہو، تو انیس سو ستر (1970) کی دہائی بلاشبہ ایک سنہری دور کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب موسیقی صرف تفریح نہیں تھی، بلکہ ایک عالمی تحریک، ایک اظہارِ ذات اور ایک طرزِ زندگی بن چکی تھی۔
ایک دہائی، کئی رنگ
ستر کی دہائی کی سب سے بڑی خوبی اس کا بے پناہ تنوع تھا۔ اس ایک دہائی میں اتنی مختلف اور انقلابی موسیقی کی اصناف نے جنم لیا اور عروج پایا کہ آج تک دنیا ان کے سحر میں مبتلا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب ریڈیو کی لہریں نئے تجربات اور نئی آوازوں سے گونج رہی تھیں۔ ایک طرف ڈسکو (Disco) کی چمک دمک تھی تو دوسری طرف راک (Rock) موسیقی کا جنون تھا۔
ڈسکو کا عروج: جب دنیا رقص کرنے لگی
ستر کی دہائی کے وسط میں ڈسکو موسیقی نے ایک طوفان کی طرح پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ محض موسیقی نہیں تھی، بلکہ ایک مکمل ثقافت تھی جس میں رقص، روشن لباس اور نائٹ کلب شامل تھے۔ گروپس جیسے "بی جیز" (Bee Gees) نے اپنی لازوال دھنوں سے تاریخ رقم کی، اور ان کے گیت آج بھی ہر محفل کی جان ہیں۔ اسی طرح "ایبا" (ABBA) کے پاپ نغموں اور "ڈونا سمر" (Donna Summer) کی آواز نے ڈسکو کو وہ عروج بخشا جو آج بھی قائم ہے۔ ریڈیو اسٹیشنز پر ان نغموں کی دھوم تھی اور نوجوان نسل ان دھڑکنوں پر جھوم رہی تھی۔
راک موسیقی کا سنہری دور
اگر ڈسکو رقص کے لیے تھا، تو راک موسیقی روح کے لیے تھی۔ ستر کی دہائی کلاسیکی راک کا عروج تھا۔ "کوئین" (Queen) جیسے بینڈ نے اپنے منفرد انداز اور فریڈی مرکری کی کرشماتی آواز سے اسٹیڈیم بھر دیے۔ "پنک فلوئیڈ" (Pink Floyd) نے موسیقی میں گہرے فلسفے اور نئے صوتی تجربات کو متعارف کرایا۔
اسی دہائی میں "ایگلز" (Eagles) کے گیت "ہوٹل کیلیفورنیا" جیسے نغموں نے ایک الگ پہچان بنائی، جو آج بھی ریڈیو پر سب سے زیادہ سنے جانے والے گیتوں میں سے ایک ہے۔ "لیڈ زیپلن" (Led Zeppelin) نے ہارڈ راک کی بنیادوں کو مضبوط کیا اور ان کے نغمے توانائی سے بھرپور تھے۔ یہ وہ دور تھا جب گٹار سولو (Guitar Solo) اور طویل نغمے فن کا درجہ اختیار کر گئے تھے۔
پاپ اور نغمہ نگاروں کا جادو
راک اور ڈسکو کے علاوہ، ستر کی دہائی عظیم پاپ اسٹارز اور نغمہ نگاروں کا دور بھی تھا۔ "ایلٹن جان" (Elton John) نے اپنے پیانو اور دلکش دھنوں سے کروڑوں دل جیتے۔ "جیکسن فائیو" (Jackson 5) نے دنیا کو مائیکل جیکسن کا تعارف کرایا، جس نے آگے چل کر موسیقی کی دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ یہ وہ نغمے تھے جو ریڈیو پر بار بار سنے جاتے تھے اور لوگ ان کے بولوں سے خود کو جوڑ پاتے تھے۔
برصغیر پر اثرات
مغرب میں ہونے والی اس موسیقی کی انقلاب کا اثر برصغیر پاک و ہند پر بھی پڑا۔ پاکستان میں، ستر کی دہائی لالی وڈ (پاکستانی فلم انڈسٹری) کا سنہری دور سمجھا جاتا تھا۔ احمد رشدی، عالمگیر اور رونا لیلیٰ جیسے گلوکاروں نے مغربی پاپ اور ڈسکو کے اثرات کو مقامی موسیقی میں سمو کر لازوال گیت تخلیق کیے۔ پڑوسی ملک بھارت میں آر-ڈی-برمن (R. D. Burman) نے مغربی دھنوں کو دیسی انداز میں پیش کر کے بالی وڈ موسیقی میں ایک انقلاب برپا کر دیا، جو ستر کی دہائی کی پہچان بنا۔
لازوال میراث
آج کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ستر کی دہائی کی موسیقی "سدا بہار" (Classic Hits) کیوں کہلاتی ہے؟ اس کی وجہ ان نغموں کی اصلیت، ان کا جذبہ اور ان کی فنی پختگی ہے۔ اس دور کے موسیقاروں نے ٹیکنالوجی کے بجائے اپنی صلاحیتوں اور تخلیقی سوچ پر انحصار کیا۔
"ریڈیو - سدا بہار نغمے ایک سو نو" (Radio - Classic Hits 109) اسی سنہری دور کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے وقف ہے۔ ہمارا مقصد آپ کو اس وقت میں واپس لے جانا ہے جب موسیقی دل سے نکلتی تھی اور سیدھی دل پر اثر کرتی تھی۔ چاہے آپ ڈسکو کی دھڑکنوں پر رقص کرنا چاہیں یا راک موسیقی کی گہرائی میں کھو جانا، ہمارا ریڈیو اسٹیشن آپ کے لیے ستر کی دہائی کے وہ تمام نایاب اور مقبول نغمے پیش کرتا ہے جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔
ریڈیو کی لہروں پر اس سنہری دور کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ہمیں سنیں اور ان لازوال دھنوں کا حصہ بنیں جو آج بھی اتنی ہی تازہ اور دلکش ہیں جتنی وہ ستر کی دہائی میں تھیں۔